Wednesday, 12 March 2014

A Complete Story of Apple

A Complete Story of Apple 



Apple+Incایپل اِن کارپوریشن جو کہ پہلے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کہلاتی تھی، ایک امریکی بین الاقوامی کمپنی ہے۔اس کا ہیڈ کوارٹر Cupertinoکیلی فورنیا میں ہے۔ ایپل کی مصنوعات میں کنزیومر الیکٹرانکس، کمپیوٹر کے سافٹ وئیر اور پرسنل کمپیوٹر کی ڈیزائننگ، تیاری اور فروخت شامل ہیں۔ اپیل کی بہترین مصنوعات میں میک کمپیوٹرز، آئی پوڈ میوزک پلیئرز، آئی فون اسمارٹ فونز اور آئی پیڈ ٹیبلٹ کمپیوٹر شامل ہیں۔ ایپل کے شہرت یافتہ سافٹ وئیرز میں OS X اور iOS آپریٹنگ سسٹم، آئی ٹیون میڈیا برائوزر، سفاری ویب برائوزر، آئی لائف (iLife) اور آئی ورک (iWork) جیسے تخلیق کاری اور پروڈکشن  کے پروگرام شامل ہیں۔
ایپل کی بنیاد یکم اپریل 1976ء کورکھی گئی اور اسے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کے نام سے3جنوری 1977ء کور رجسٹرڈ کرایا گیا۔ کمپنی کے نام میں سے لفظ ’’کمپیوٹر‘‘ کو 9جنوری 2007ء کو حذف کیا گیا۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی تھی کہ اب ایپل اِن کارپوریشن نے اپنی توجہ کا مرکز کمپیوٹر سے زیادہ دوسری کنزیومر الیکٹرونکس کو بنا لیا ہے۔ اس لیے آئی فون کو متعارف کرانے کے بعد کمپنی نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا ۔ایپل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آمدن کے لحاظ سے سام سنگ الیکٹرونکس کے بعد دنیا کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ موبائل فون بنانے کے حوالے سے سام سنگ اور نوکیا کے بعد ایپل دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ فورچون میگزین (Fortune Magazine) کے مطابق 2008ء سے2012ء تک ایپل دنیا کی Most Admired کمپنی رہی ہے۔گزشتہ سال ایک ایسا موقع بھی آیا جب ایپل کے پاس امریکی حکومت سے زیادہ کیش موجود تھا۔ تاہم ایپل پر بہت سے حوالوں جیسا کہ کنٹریکٹر لیبر پریکٹس ، کام کرنے کے ماحول اور بزنس پریکٹس کے حوالے سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔
نومبر 2012ء تک ایپل کے 14 ممالک میں 394 ریٹیل اسٹور تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آن لائن ایپل اسٹور اور آئی ٹیون اسٹور بھی ایپل چلا رہا ہے۔ جنوری 2013ء میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کے اعتبار سے ایپل دنیا کی دوسری بڑی کمپنی تھی جس کی مالیت تقریباً 414 ارب امریکی ڈالرز تھی۔ 29ستمبر 2012ء کو ایپل کمپنی کے دنیا بھر میں 72,800 مستقل کُل وقتی اور 3,300 عارضی کُل وقتی ملازمین کام کر رہے تھے۔ 2012ء میں ایپل کی آمدن 156ارب امریکی ڈالر رہی۔

ایپل کی تاریخ

٭ 1976تا1980: بنیاد اور اِن کارپوریشن

ایپل کی وہ پہلی پروڈکٹ جو بنا کر بیچی گئی، ایک سرکٹ بورڈ تھا جس میں کی بورڈ، کیسنگ اور مانیٹر وغیرہ کچھ نہیں تھے۔ اس کے مالک نے اس میں کی بورڈ اور لکڑی کے کیس کا اضافہ کیا۔
ایپل کی بنیاد یکم اپریل 1976ء کو اسٹیو جابز، اسٹیو ووزنیاک (Steve Wozniak) اور رونالڈ وائن نے رکھی۔ شروع میں ایپل صرف  Apple I کے نام سے پرسنل کمپیوٹر کٹ بنا کر فروخت کرتی تھی۔ یہ کٹ اسٹیو ووزنیاک ہاتھ سے خود بناتا تھا۔ پہلی بار یہ کٹ عوام میں ہوم بریو کمپیوٹر کلب میں متعارف کرائی گئیں۔ Apple I بطور مدر بورڈ کے فروخت کیا گیا جس میںبنیادی سی پی یو، ریم اور ٹیکسٹ کو دکھانے کے لیے ویڈیو چپ بھی ہوتی تھی۔ Apple I جولائی 1976ء میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ اس کی قیمت اُس وقت 666.66 امریکی ڈالرز تھی جو آج کے حساب سے 2,723 ڈالرز بنتی ہے۔ ایپل کو 3جنوری 1977ء کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ رجسٹرڈ کراتے وقت رونالڈ وائن کمپنی میں شامل نہیں تھا۔ اُس نے اپنا حصہ 800 ڈالر میں اسٹیو اور ووزنیاک کو فروخت کر دیا تھا۔ اس کو رجسٹرڈ کراتے وقت مائک مارکولا (Mike Markkula) نے، جو ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کے مالک تھے، ایپل کو فنی معاونت اور تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر سرمایہ فراہم کیا۔
16اپریل 1977ء کو ویسٹ کوسٹ کمپیوٹر فیئر میں Apple II کو متعارف کرایا گیا۔ یہ اپنے حریفوں TRS-80 اورCommodore PET سے اپنی خصوصیات جیسا کہ سیل بیسڈ کلر گرافکس اور اوپن آرکیٹکچر کی وجہ سے کافی مختلف تھا۔اس کے پہلے ماڈلز میں عام کیسٹ ٹیپ کو اسٹوریج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جسے بعد میں 5 1/4 انچ کی فلاپی ڈسک ڈرائیو نے تبدیل کیا۔ Apple II کو ڈیسک ٹاپ پلیٹ فارم کے لیے ایک انتہائی کامیاب پروگرام  VisiCalc  کو چلانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ VisiCalc ایک اسپریڈ شیٹ پروگرام تھا جس نے  Apple II کو کاروباری مارکیٹ میں داخل کیا اور گھریلو صارفین بھی اس کی وجہ سے اس قابل ہوئے کہ اپنے کمپیوٹر کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ ایپل کے ساتھ جب تک VisiCalc ایپلی کیشن آتی رہی یہ Commodore اور Tandy کے بعد تیسرے نمبر پر رہا۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں ایپل کے پاس اسٹاف میں کمپیوٹر ڈیزائنر اور پروڈکشن لائن سب کچھ تھا۔ مئی 1980ء میں ایپل نے مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم سے بزنس اور کارپوریٹ کمپیوٹنگ میں مقابلہ کرنے کے لیے Apple III کو متعارف کرایا مگر اس کی یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہ رہی۔ دسمبر1979ء میں ایپل کے مالکان اور بہت سے ملازمین نے Xerox کیPARC فیکٹری کا دورہ کیا۔ اُن کا مقصد Xerox Alto کو دیکھنا تھا۔ Xerox نے ایپل کے انجینئرز کو تین دن کے لیے اپنی فیکٹری کا دورہ کرنے کی اجازت اس شرط پر دی کہ وہ ایپل کے ایک لاکھ شیئرز دس ڈالر فی شیئر کے حساب سے آئی پی او سے پہلے خرید سکے گا۔ جابز اس وجہ سے فوراً رضامند ہو گیا کہ مستقبل کے تمام کمپیوٹر گرافکس یوزر انٹر فیس استعمال کر یں گے اورApple Lisa کے لیے گرافیکل یوزر انٹرفیس کی تیاری کا کام شروع ہو گیا۔ 12دسمبر 1980ء کو ایپل پبلک لمیٹڈ ہوگیا۔ اس کے شیئر کی قیمت 22ڈالر فی شیئر تھی۔ آئی پی او (Initial Public Offering) کی وجہ سے اس کے پاس زبردست سرمایہ جمع ہو گیا۔ اس سے پہلے فورڈ موٹر کمپنی ہی وہ کمپنی تھی جس میں اس قدر سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ اسی طرح ان اقدام سے تقریباً 300 لوگ ایک دم لکھ پتی ہو گئے جو ماضی میں یک دم کبھی نہ ہوا تھا۔
Steve-Jobsاسٹیو جابز 24 فروری 1955ء کیلی فورنیا میں عبدالفتاح جندلی اور جوعین کارول کے یہاں پیدا ہوا۔ دونوں چونکہ شادی شدہ نہیں تھے اس لئے انہیں اپنا بچہ ایڈاپشن کے لئے پیش کرنا پڑا۔ بقول عبدالفتاح کہ جوعین کے گھر والے ان کے اس رشتے سے خوش نہیں تھے لہٰذا انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ اسٹیوجابز کو ایک غریب خاندان پال جابزاور کارلا جابز نے گود لے لیا۔ جابز کی ماں کارلا جابز نے اسے اسکول جانے سے پہلے پڑھنا سکھا دیا تھا لیکن وہ کبھی بھی پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی حقیقی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اچھے کالج میں پڑھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Reed کالج میں داخل کرایا گیا جس کا خرچہ کارلا اور ان کے شوہر پال جابز بمشکل تمام پورا کرپاتے تھے۔
اسٹیو جابز کا بچپن اور زیادہ تر جوانی کا عرصہ محرومیوں اور ذہنی دبائو کا شکار رہا۔ اسے عدم توجہی کی وجہ سے کالج سے بھی نکال دیا گیا اور وہ دربدر کے دھکے کھانے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے کئی معمولی نوکریاں کیں۔ حتیٰ کہ وہ ہندئوں کے ایک مندر سے مفت کھانا بھی کھاتا رہا۔ 1971ء میں اسٹیو جابز کے دوست Bill Fernandez نے اسے اپنے دوست Wozniak سے متعارف کروایا جس نے 1976ء میں تن تنہا Apple 1 کمپیوٹر تیار کرلیا تھا۔ یہی اسٹیو جابز کی ترقی کا آغاز تھا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور وہ وقت بھی آگیا جب کوک کی خالی بوتلیں جمع کرکے گزارا کرنے والا امریکہ کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوگیا۔
اکتوبر 2003ء میں تشخیص ہوئی کہ اسے کینسر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے ایپل میں اپنے رو زمرہ کے کاموں سے ہاتھ نہیں کھینچا اور بالاآخر 5اکتوبر 2011ء کو اپنے گھر میں اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ اسٹیو کی پوری زندگی محنت اور مشقت سے بھری پڑی ہے۔ اس نے دنیا کو سکھایا کہ چھوٹے آدمی کو بڑے کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

٭ 1981تا1985 :  Lisa اورMacintosh

ایپل کی تشہیر فلم ’’1984‘‘ جو جارج اورول کے ناول ’’نائینٹین ایٹی فور‘‘ سے ماخوذ تھی، کے ذریعے ایپل نے میکینٹوش کمپیوٹر متعارف کراویا۔ اسٹیو جابز نے ایپل لیزا پر 1978ء میں کام کرنا شروع کیا مگر 1982ء میں لیزا پر کام کرنے والی ٹیم سے جھگڑے کے بعد اسے ٹیم سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے جیف راسکن کے کم قیمت کے کمپیوٹر پروجیکٹ ’’میکینٹوش‘‘ پر کام شروع کر دیا۔ پھر تو جیسے لیزا پروجیکٹ ٹیم اور میکینٹوش پروجیکٹ ٹیم کے درمیان ریس ہی شروع ہو گئی کہ کون سی ٹیم اپنا کمپیوٹر بنا کر مارکیٹ میں پہلے لے کر آتی ہے۔
لیزا ٹیم یہ ریس جیت گئی اور 1983ء میں لیزا کو عوام میں فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا۔ یہ پہلا پرسنل کمپیوٹر تھا جو گرافیکل یوزر انٹرفیس کے ساتھ تھا۔ کاروباری طور پر لیزا فلاپ ثابت ہوا کیونکہ ایک تو اس کی قیمت بہت زیادہ تھی دوسرا اس میں چلنے والے سافٹ وئیر کافی محدود تھے۔
اس کے ایک سال بعد یعنی 1984ء میں میکینٹوش کو ریلیز کیا گیا۔ اس کی ریلیز کا اعلان پندرہ لاکھ ڈالر کی مالیت سے تیار کی گئی کمرشل ’’1984‘‘ سے کیا گیا، جسے Ridley Scott نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس اشتہار کو22جنوری 1984ء کو Super Bowl XVIII کے تھرڈ کوارٹر میں دکھا یا گیا۔ اس کمرشل نے ایپل کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ میکینٹوش شروع میں تو بہت زیادہ فروخت ہوا مگر اس کے بعد اس کی فروخت میں کافی کمی واقع ہوئی جس کی وجوہات بھی وہی تھیں جس کی وجہ سے لیزا فلاپ ہوا، یعنی زیادہ قیمت اورمخصوص سافٹ وئیر۔
کچھ ہی عرصے بعد جبLaserWriter جو کہ ایک پوسٹ اسکرپٹ لیزر پرنٹر تھا اور بہت کم قیمت بھی، متعارف کروایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی PageMaker نامی مشہور زمانہ سافٹ ویئر بھی مارکیٹ میں پیش کردیا گیا۔ اس سے پہلے میکینٹوش تو تھا ہی جس میں اس وقت کے حساب سے کافی اچھی گرافکس سپورٹ تھی لہٰذا ان تینوں مصنوعات نے مل کر ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کی بنیاد رکھی اور اس مارکیٹ پر راج کرنے لگیں۔آج سے چند سال پہلے تک ایپل کی شہرت ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کے حوالے سے ہی تھی۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی باری تو کئی دہائیوں بعد آئی ہے۔
1985ء میں اسٹیو جابز اور کمپنی کے سی ای او جان سکولے(John Sculley)، جسے دو سال پہلے ہی کمپنی میں ملازم رکھا گیا تھا، کے درمیان اختیارات کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او کو ہدایات دیں کہ وہ اسٹیو جابز کو قابو میں رکھے۔ اسٹیو جابز نے سکولے کی ہدایات پر کان دھرنے کے بجائے اسے ہی ایپل سے فارغ کرنے کی کوشش کی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سکولے نے بورڈ میٹنگ بلائی۔ اس میٹنگ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او کی طرف داری کی اور جابز کو اس کے انتظامی عہدے سے فارغ کر دیا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز بدظن ہوگیا اور ایپل سے مستعفی ہوکر ایک نئی کمپنی NeXT Inc کی بنیاد رکھی۔

٭ 1986تا1997:  زوال

1989ء میں ایپل نے میکینٹوش پورٹیبل لانچ کیا۔ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ وہ کام تو ڈیسک ٹاپ میکینٹوش جیسا کرتا تھامگر اس کا وزن صرف 7.5کلو گرام تھا اور اس کی بیٹری ٹائمنگ 12 گھنٹے تھی۔ میکینٹوش پورٹیبل کے بعد 1991ء میں ایپل نے پاور بُک (PowerBook) متعارف کرایا۔ اسی سال ایپل نے System 7 متعارف کرایا جس سے آپریٹنگ سسٹم میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ سسٹم سیون سے انٹرفیس بھی رنگین ہو گیا اور نیٹ ورکنگ کی نئی سہولیات بھی آپریٹنگ سسٹم میں شامل ہو گئیں۔
پاور بک اور دوسری مصنوعات کی کامیابی سے ایپل کو بہت فائدہ ہوا۔ ایپل نئی نئی مصنوعات بناتا رہا اور نفع کماتا رہا۔ ایک میگزین میک ایڈکٹ (MacAddict) نے 1989ء سے 1991ء تک کے عرصے کو میکینٹوش کا پہلا سنہرا دور کہا ہے۔
میکینٹوش کی کامیابی کے بعد ایپل نے کمپیوٹر کی دوسری سیریز بھی متعارف کرائی جن میں Centris، Quadra اور Performa شامل ہیں جو کہ بہت سے سافٹ وئیر اور کنفگریشن کے ساتھ دستیاب تھے۔ مقابلے بازی سے بچنے کے لیے یہ کمپیوٹر بہت سے ریٹیل آئوٹ لٹ جیسے Sears،  Price Club اور Wal-Mart پر فروخت کے لیے پیش کیے گئے۔اس طرح ایک ساتھ بہت سے ماڈل پیش کرنے پر ایپل کو یہ نقصان ہوا کہ صارفین ان بہت سے ماڈلز میں فرق کو صحیح طور پر نہ جان سکے۔
اس وقت کے دوران ایپل نے بہت سی ناکام مصنوعات جیسے ڈیجیٹل کیمرہ، پورٹیبل سی ڈی آڈیو پلیئر، اسپیکرز، ویڈیو کنسولز اور ٹی وی اپلائنسز پر تجربات کئے۔ ان تمام مصنوعات پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی مگر اس کے باوجودایپل کے اسٹاک کی قیمتیں مسلسل گرتی ہی رہیں۔
ایپل نے جب دیکھا کہ Apple II سیریز کے کمپیوٹر بناناکافی مہنگا پڑ رہا تو ایپل نے میکینٹوش کو ایک اضافی سلاٹ کے ساتھ ریلیز کیا جس کی مدد سے Apple II کے صارفین میکینٹوش پر منتقل ہو سکتے تھے۔ 1993ء میں ایپل نے Apple II کی فروخت بند کر دی۔
مائیکروسافٹ مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے کام کر رہا تھا۔ مائیکروسافٹ اپنے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کے ذریعے سستے پرسنل کمپیوٹر کے لیے سافٹ وئیر فراہم کرتا رہا جبکہ ایپل کی توجہ مہنگی مصنوعات اور بہت زیادہ منافع پر مرکوز رہی۔ اپنی مصنوعات کو عام عوام کی پہنچ میں لانے اور اپنے منافع کی قربانی دینے کے بجائے ایپل نے مائیکروسافٹ پر مقدمہ کر دیا جس میں اس بات کو بنیاد بنایا گیا کہ مائیکروسافٹ اپنے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کے لیے جو گرافیکل یوزر انٹرفیس استعمال کر رہا ہے وہ ایپل کے ’’ایپل لیزا‘‘ جیسا ہے۔یہ مقدمہ اپنا فیصلہ ہونے تک سالوں عدالت میں چلتا رہا۔ اس عرصے میں ایپل کی بہت سی مصنوعات فلاپ ہوئیں، اس کی ساکھ کو بھی بُری طرح نقصان پہنچا اور اس کے سی ای او سکولے کو ہٹا کر مائیکل اسپینڈلر(Michael Spindler) کو کمپنی کا نیا سی ای او بنا دیا گیا۔
نیوٹن، ایپل کی وہ پہلی پروڈکٹ تھی جس سے وہ پرسنل ڈیجیٹل اسسٹنٹ (PDAs) کی مارکیٹ میں بلکہ اس صنعت میں داخل ہوا۔ نیوٹن نے آنے والے وقت میں Palm Pilot اور ایپل کے ہی iPhoneاورiPad کے لیے راہ ہموار کی۔1990ء کی دہائی کے شروع میں ایپل میکینٹوش کے متبادل یعنی A/UX کی تیاری کر رہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی میک کے لیے آن لائن پورٹل کا تجربہ بھی شروع کر دیا جسے eWorld کا نام دیا گیا۔ اسے امریکہ آن لائن کے تعاون سے بنایا گیا جو دوسری آن لائن سروسز جیسے کمپوسرو (CompuServe)کا متبادل تھا۔ میکینٹوش پلیٹ فارم بذات خود بہت پرانا ہو چکا تھا۔ اس پر بہت سے کام ایک ساتھ نہیں انجام دئیے جاسکتے تھے اس کے علاوہ اس میں اہم سافٹ وئیر براہ راست ہارڈ وئیر میں پروگرام کیے جاتے تھے۔ سب سے بڑھ کر ایپل کوSun Microsystems کے  OS/2 اورUNIX سے بھی مقابلے کا سامنا تھا۔ اس لیے میکینٹوش کو نئے پلیٹ فارم سے تبدیل کرنے ضرورت تھی یا اس میں ہی وہ تبدیلیاں ضروری تھی جس سے یہ مزید تیزرفتار ہارڈوئیر پر بھی چل سکے۔
1994ء میں ایپل نے آئی بی ایم اور موٹرولا کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس الحاق کا مقصد نیا پلیٹ فارم (پاور پی سی) بنانا تھا جس میں ہارڈوئیر تو آئی بی ایم اور موٹرولا کا استعمال ہو مگر سافٹ وئیر ایپل کے۔ ان کمپنیوں کو امید تھی کہ وہ اپنے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر سے پرسنل کمپیوٹر اور خاص طور پر مائیکروسافٹ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
اسی سال ایپل نے پاور میکینٹوش متعارف کرایا۔ یہ ایپل کے کمپیوٹروں میں سے پہلا کمپیوٹر تھا جو موٹرولا کے پاور پی سی کا پروسیسر استعمال کرتا تھا۔1996ء میں گِل ایمیلیو (Gil Amelio) نے کمپنی کے نئے سی ای او کی حیثیت سے اپنا کام سنبھالا۔ اُس نے کمپنی میں بہت سی تبدیلیاں کی ، جن میں بڑی تعداد میں کارکنوں کو فارغ کرنا بھی تھا۔ کمپنی نے اپنے سسٹم میک او ایس کو بہتر بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کی ، اس کے لیے کمپنی میں کئی پراجیکٹ شروع کیے گئے۔ سی ای او گِل نے اس کے بعد اسٹیو جابز کی کمپنی NeXT اور اس کے آپریٹنگ سسٹم NeXTSTEP کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ اسٹیو جابز کو بطور ایڈوائزر کمپنی میں واپس لے آیا۔ 9جولائی 1997ء کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائر یکٹر نے سی ای او Gil Amelio کو اس کی تین سالہ کارکردگی، جس میں کم ترین اسٹاک پرائس اور قابو سے باہر معاشی نقصانات تھے، دیکھنے کے بعد برطرف کر دیا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز کو کمپنی کا عارضی سی ای او بنا دیا گیا جس نے آتے ہیں کمپنی کی مصنوعات کا از سر نو جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں شروع کیں۔ 1997ء کے میک ورلڈ ایکسپو میں اسٹیو جابز نے اعلان کیاکہ وہ مائیکرو سافٹ کے ساتھ مل کر میکینٹوش کے لیے مائیکروسافٹ آفس کا نیا ورژن بنائیں گے۔ اس کے علاوہ مائیکرو سافٹ ایپل میں 150ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی مگر اسے انتظامی امور میں ووٹ کا حق نہ ہو گا۔
10نومبر 1997ء ایپل نے آن لائن اسٹور متعارف کرایا اور کمپنی نے بلڈ ٹو آرڈر (build-to-order) کی حکمت عملی اپنائی۔

٭ 1998تا2005 : ایک بار پھر عروج

15اگست 1998ء کو ایپل نے iMac متعارف کرایا۔ آئی میک کی ڈیزائننگ ٹیم کے سربراہ جوناتھن آئیو (Jonathan Ive) تھے جنہوں نے بعد میں آئی پوڈ اور آئی فون بھی ڈیزائن کیا۔ آئی میک جدید ٹیکنالوجی اور منفرد ڈیزائن سے مزین تھااس لیے اپنی ریلیز کے پہلے پانچ ماہ میں اس کے آٹھ لاکھ یونٹ فروخت ہوئے۔اس عرصے میں ایپل نے بہت سی کمپنیوں کو خریدا۔ ایپل نے مائیکرو میڈیا کے فائنل کٹ سافٹ وئیر کو بھی خرید لیا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب ایپل ڈیجیٹل ویڈیو ایڈیٹنگ کی مارکیٹ میں بھی داخل ہو گیا ہے۔
اس کے بعد کے سالوں میں ایپل نے صارفین کے لیے iMovie اور ماہرین کے لیے Final Cut Pro ریلیز کیا۔ فائنل کٹ پرو ویڈیو ایڈیٹنگ کے لیے ایک بہت اچھا سافٹ وئیر تھا جس کے 2007ء میں رجسٹرڈ صارفین کی تعداد آٹھ لاکھ تھی۔
2002ء میں ایپل نے Nothing Real نامی کمپنی کو اپنی ایڈوانسڈ دیجیٹل کمپوزیٹنگ ایپلی کیشن Shake کے لیے خرید لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی میوزک پروڈکٹیویٹی ایپلی کیشن Logic کے لیے Emagic کو خرید لیا جس نے GarageBand ایپلی کیشن کی بنیاد رکھی۔اسی سال iPhoto کی ریلیز کے ساتھ ہی iLife سویٹ مکمل ہو گیا۔
Mac OS X کی بنیادNeXT کے OPENSTEP اورBSD Unix پر ہے جسے 24مارچ 2001ء کو بہت سالوں کی ڈویلپمنٹ کے بعد ریلیز کیا گیا۔ صارفین اور ماہرین کی ضروریات کے مطابق Mac OS X کو استعمال میں آسان، مستحکم اور محفوظ بنایا گیا ہے۔Mac OS 9 کے صارفین کے لیے بھی Mac OS X میںیہ سہولت ہے کہ وہ کلاسک انٹر فیس میں اپنی ایپلی کیشن میں کام کر سکیں ۔
19مئی 2001ء کو ایپل نے اپنے پہلے آفیشل ریٹیل اسٹور ز ورجینیا اور کیلی فورنیا میں کھولے۔ 9 جولائی کو ایپل نے سپروس ٹیکنالوجیز (Spruce Technologies)، جو کہ ڈی وی ڈی آتھرنگ (ایسی ڈی وی ڈی ویڈیو بنانے کا عمل جو ڈی وی ڈی پلیئر پر چلائی جاسکے)کمپنی ہے ، کو خریدا۔ اسی سال 23 اکتوبر کو ایپل نے آئی پوڈ پورٹیبل ڈیجیٹل آڈیو پلیئر کا اعلان کیا اور اس کی فروخت 10نومبر 2001ء سے شروع کی۔ ایپل کی یہ پروڈکٹ حیرت انگیز طور پر توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئی۔ چھے سالوں میں اس کے دس کروڑ یونٹ فروخت ہوئے۔ 2003ء میں ایپل نے آئی ٹیون اسٹور کو متعارف کرایا جہاں پر آئی پوڈ میں 0.99 ڈالر کے عوض ایک گانا ڈائون لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سروس جلد ہی آن لائن میوزک کی انڈسڑی میں چھا گئی۔ 19جون 2008ء تک اس سروس سے پانچ ارب سے زائد گانے ڈائون لوڈ کیے گئے یعنی پانچ ارب ڈالر کی کمائی!
٭ 2005تا2007 : انٹل کی جانب منتقلی
بک پرو ایپل کا پہلا لیپ ٹاپ تھا جس میں انٹل کا مائیکرو پروسیسر لگا ہوا تھا۔ اس لیپ ٹاپ کا اعلان ایپل نے جنوری 2006ء میں کیا۔ 6جون 2005ء کو ورلڈوائیڈ ڈویلپرز کانفرنس میں اسٹیو جابز نے اعلان کیا کہ ایپل 2006ء سے انٹل بیسڈ میک کمپیوٹر بنائے گا۔اس سے اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ ایپل گنگا میں ہمیشہ اُلٹا ہی بہتا ہے!
10جنوری 2006ء کو نئے میک بک پرو اور آئی میک ایپل کے پہلے کمپیوٹر بن گئے جن میں انٹل کا دوہرے کور والا پروسیسر استعمال ہوا۔ 7اگست 2006 ء کو ایپل نے میک کی تمام پروڈکٹ لائن میں انٹل چِپ استعمال کرنی شروع کر دی۔ اس تبدیلی کے بعد ایپل کے بہت سے پرانے برانڈ کی جگہ اُن نئے برانڈز نے لے لی جن میں انٹل چپ استعمال ہوئی تھی۔ پاور میک کی جگہ میک پرو آ گیا، آئی بک کی جگہ میک بک نے لے لی اور پاور بک کی جگہ میک بک پرو آ گیا۔
ایپل نے Boot Camp نامی سافٹ ویئر متعارف کرایا جس کی مدد سے صارفین اپنے انٹل میک پر Mac OS X سسٹم کے ساتھ ساتھ ونڈو ایکس پی یا وِستا بھی ا نسٹال کر سکتے ہیں۔
اس عرصے میں ایپل کی کامیابی اس کے اسٹاک کی قیمتوں سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔ 2003ء اور 2006 ء کے درمیان ایپل کے اسٹاک کی قیمتوں میں دس گُنا سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ شیئر کی قیمت چھے ڈالر فی شیئر سے بڑھ کر اسی ڈالر فی شیئر تک پہنچی ۔ جنوری 2006ء میں ایپل مالی لحاظ سے ڈیل (Dell)سے سبقت لے گیا۔ نو سال پہلے ڈیل (Dell) کے سی ای او مائیکل ڈیل (Michael Dell) نے کہا تھا کہ اگر وہ ایپل کمپنی کو چلا رہے ہوتے تو وہ کب کا اسے بند کر کے شیئر ہولڈرز کا پیسہ انہیں واپس کر چکے ہوتے۔
اگرچہ ایپل کا کاروبار بہت بڑھا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے حریفوں سے جو مائیکروسافٹ ونڈوز استعمال کر رہے تھے، بہت پیچھے تھے ۔ امریکہ کی ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ مارکیٹ میں اس کا حصہ اب بھی صرف 8فیصد تھا۔

٭ 2007تا2011:شاندار کامیابی کا دور

ایپل نے آئی فون، آئی پوڈ ٹچ اور آئی پیڈ کی مصنوعات سے بہت بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ اپنی مصنوعات سے ایپل نے موبائل فونز، پورٹیبل میوزک پلیئرز اور پرسنل کمپیوٹرز میں بہت زیادہ جدت پیدا کر دی۔ ٹچ اسکرین ایپل کے استعمال کرنے سے پہلے ہی ایجاد ہو چکی تھی اور موبائلز میں بھی استعمال ہوتی تھی لیکن ایپل وہ پہلی کمپنی تھی جس نے ایسا یوزر انٹرفیس اپنایا جس میں پہلے سے پروگرام کی ہوئی حرکات موجود تھیں، جیسے فنگر کو کیسے سوئپ کرنے سے کیا ہوگا وغیرہ۔ اس طرح ایپل نے ٹچ اسکرین کو عوامی سطح پر مقبول کر دیا۔ 9جنوری 2007ء کو اسٹیوجابز نے میک ورلڈ ایکسپو میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب سے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کا نام ایپل اِن کارپوریشن ہوگا کیونکہ اب صرف کمپیوٹر ہی کمپنی کا محور نہیں ہوگا۔ اس کے بعد کمپنی نے زیادہ توجہ موبائل الیکٹرونکس ڈیوائسس پر دی۔ اس ایونٹ میں آئی فون اور ایپل ٹی وی کے بھی اعلانات ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے دنوں میں ایپل کے اسٹاک کی قیمت 97.80 ڈالر فی شیئر تک پہنچ گئی جو کہ اب تک کی تاریخ کی بلند ترین قیمت تھی۔ اس کے بعد مئی میں یہ قیمت 100ڈالر سے بھی بڑھ گئی۔
6فروری 2007ء کو ایپل کی ویب سائٹ پر اسٹیو جابز نے ایک آرٹیکل پوسٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ریکاڈنگ کمپنیاں چاہیں تو ایپل آئی ٹیون اسٹور پر میوزک ڈیجیٹل رائٹس منیجمٹ (DRM) کے بغیر فروخت کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ میوزک کسی دوسری کمپنی کے پلیئر پر بھی چلایا جاسکے گا۔
2اپریل 2007ء کو ایپل اور ای ایم آئی نے مشترکہ طور پرآئی ٹیون اسٹور پر ای ایم آئی کی کیٹلاگ پر ڈی آر ایم ٹیکنالوجی کے خاتمے کا اعلان کیا جس پر حتمی طور پر مئی 2007ء کو عمل ہوا۔ دوسری ریکارڈنگ کمپنیوں نے بھی اس کے بعد ای ایم آئی کی پیروی کی۔
اسی سال جولائی میں ایپل نے آئی فون اور آئی پوڈ ٹچ کے لیے تھرڈ پارٹی ایپلی کیشنز کی فروخت کے لیے App Store لانچ کیا۔ایک ماہ کے دوران ہی اس اسٹور نے تقریباً چھے کروڑ ایپلی کیشنز فروخت کیں اور روزانہ تقریباً ایک ملین ڈالر اوسط کے حساب سے کمائی کی۔ اسٹیوجابز کو بھی پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ یہ ایپلی کیشن اسٹور ایپل کے لیے بلین ڈالر پروجیکٹ ہوگا۔ اس کے تین ماہ بعد ہی اعلان کیا گیا کہ آئی فون کی مقبولیت کی وجہ سے ایپل دنیا میں موبائل فون بنانے والی تیسری بڑی کمپنی بن گئی ہے۔ 16دسمبر 2008ء کوایپل نے اعلان کیا کہ 2009ء میں ہونے والے میک ورلڈ ایکسپو میں ایپل آخری بار شرکت کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ایپل اس ایکسپو میں بیس سال سے شرکت کر رہا تھا۔ ایپل نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسٹیو جابز کی جگہ Phil Schiller تقریر کرے گا۔ اس کے تقریباً ٹھیک ایک ماہ بعد 14 جنوری 2009ء کو ایپل کمپنی کے ایک انٹرنل میمو میں اعلان کیا گیا کہ اسٹیو جابز جون 2009 تک چھے ماہ کی رخصت لے رہا ہے تاکہ اپنی صحت پر بہتر طور پر توجہ دے سکے۔ اسٹیوجابز کے رخصت پر جانے کے بعد 2009 کی پہلی سہ ماہی میں ایپل کی آمدن8.16 ارب ڈالر رہی جبکہ خالص منافع1.21 ارب ڈالر رہا۔
27جنوری 2010 ء کو بہت سالوں سے اڑتی افواہوں کے بعد بالاآخر ایپل نے بڑی اسکرین ٹیبلٹ یعنی آئی پیڈکو متعارف کرا دیا۔ آئی پیڈ وہی ٹچ بیسڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے جو کہ آئی فون میں استعمال ہوتا ہے۔ آئی فون کی بہت سی ایپلی کیشنز آئی پیڈ کے لیے بھی کار آمد تھیں۔ اس لیے لانچ کے وقت آئی پیڈ کے لیے بہت سی ایپلی کیشنز بھی ایپل کے ایپلی کیشن اسٹور پر موجود تھیں۔ اسی سال 3اپریل 2010ء کو آئی پیڈ امریکا میں لانچ ہوا اور اسی دن اس کے تین لاکھ یونٹ فروخت ہو گئے۔ اس ہفتے کے اختتام تک یہ تعداد پانچ لاکھ ہو گئی۔ اسی سال مئی میں ایپل کی مارکیٹ ویلیو1989ء  کے بعد مائیکروسافٹ سے بڑھ گئی۔
اس کے بعد ایپل نے چوتھی نسل کا آئی فون متعارف کرایا جس میں ویڈیو کالنگ، ملٹی ٹاسکنگ اور نیا اسٹین لیس اسٹیل ڈیزائن شامل کیا گیا۔ اسٹین لیس اسٹیل بطور انٹینا کام کرتا ہے۔ آئی فون 4کے کچھ صارفین نے یہ شکایت بھی کی کہ اس انٹینا کی وجہ سے کچھ جگہوں پر فون کے رکھنے سے سگنل کم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی شکایتیں جب بہت زیادہ ہوگئیں اور یہ بات میڈیا میں بھی بہت زیادہ پھیلی تو ایپل نے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میںصارفین کو مفت ربڑ کا ایک کیس فراہم کیا گیا کہ اگر کوئی سگنل کم ہونے کا مسئلہ ہے تو کیس کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اسی سال ایپل نے اپنے آئی پوڈ پر بھی توجہ دی۔ ملٹی ٹچ آئی پوڈ نینو (Nano)، فیس ٹائم کے ساتھ آئی پوڈ ٹچ اور آئی پوڈ شفل متعارف کرائے گئے۔
اکتوبر 2010ء میں ایپل کے اسٹاک کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 300 ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ 20اکتوبر 2010ء کو ایپل نے میک بک ائیر لیپ ٹاپ، آئی لائف سوٹ ایپلی کیشن کو اپ ڈیٹ کیا۔ Mac OS X Lion کو بھی سامنے لایا گیا جو کہ Mac OS Xمیں تازہ ترین اضافہ تھا۔ 6 جنوری 2011ء کو ایپل نے اپنے پہلےiOS App اسٹور کی طرح Mac App اسٹور قائم کیا جو کہ ڈیجیٹل سافٹ وئیر ڈسٹری بیوشن پلیٹ فارم ہے۔ ایپل پر ایک ڈاکیومنٹری فلم بھی بنی ہے جس کا نام Something Ventured ہے جو کہ 2011میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

٭ 2011تاحال: اسٹیو جابز کے بعد

اسٹیو جابز نے 17جنوری 2011ء کو ایک دفعہ پھر غیر معینہ وقت کے لیے بیماری کے باعث چھٹیاں لے لیں۔ چھٹیوں کے دوران بھی اسٹیو جابز کمپنی کے لیے وقت نکال ہی لیتا تھا۔ مستقبل کی حکمت عملی اور مصنوعات کے بارے میں اکثر اپنے مشورے بھی دیتا رہتا تھا۔ جون 2011ء میں اسٹیو جابز نے آئی کلائوڈ (iCloud) کا افتتاح کیا۔ آئی کلائوڈ ایک آن لائن اسٹوریج سروس ہے جس میں میوزک، فوٹوز، فائل اور سافٹ وئیر موبائل میں محفوظ ہوتے ہیں اور خود بخود آن لائن بھی محفوظ (Sync) ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی ایک کوشش ایپل نے پہلے بھی MobileMe کے نام سے کی تھی مگر آئی کلائوڈ نے اسے بدل دیا۔ آئی کلائوڈ وہ آخری پروڈکٹ تھی جسے اسٹیو جابز نے لانچ کیا۔
ایپل نے اپنی کارکردگی سے وہ مقام حاصل کر لیا کہ اب ایپل اپنے سپلائرز سے بھی اپنی شرائط پر کام کرتا تھا۔ جولائی 2011ء میں امریکا میں امریکی حکومت کے قرضے بلند ترین سطح پر تھے۔ اس بحران میں ایپل معاشی طور پر امریکی حکومت سے زیادہ مستحکم تھا۔ 24 اگست 2011 ء کو اسٹیو جابز نے کمپنی کے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ٹم کک اس کی جگہ سی ای او بنا اور اسٹیو کمپنی کا چیئر مین بن گیا۔ اس سے پہلے ایپل میں چیئر مین نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک ساتھ دو ڈائریکٹر کمپنی کے فیصلوں کو دیکھتے تھے۔ اس وقت کمپنی کے یہ دو ڈائریکٹر اینڈریا جنگ (Andrea Jung) اور آرتھر ڈی لیوینسن (Arthur D. Levinson) تھے۔ دونوں انہی عہدوںپر کام کرتے رہے جب تک کہ آرتھر نومبر میں بورڈ کا چیئر مین نہ بن گیا۔
4اکتوبر 2011ء ایپل نے آئی فون 4 ایس کے اجراء کا اعلان کیا۔ جس میں بہت سی خصوصیات شامل کی گئی تھیں۔ 1080p ویڈیو کیمرہ ریکارڈنگ، Dual Core A5 چِپ جو کہ گرافکس دکھانے میں A4 سے سات گنا بہتر تھی، آئی کلائوڈ اور بہترین سافٹ وئیر اس کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات آئی فون 4ایس میں شامل کی گئیں۔ اس سے اگلے دن یعنی 5 اکتوبر 2011ء کو ایپل نے اعلان کیا کہ اسٹیو جابز وفات پا چکا ہے۔ اسٹیوجابز کے ساتھ ہی ایپل اِن کارپوریشن کے اہم دور کا بھی خاتمہ ہوا۔ آئی فون 4ایس کو باضابطہ طور پر14 اکتوبر 2011ء کو لانچ کیا گیا۔
19جنوری 2012ء کو ایپل کی فل شلر نے آئی او ایس کے لئے iBooks Textbooks اور میک او ایس ایکس کے لئے iBook Author ریلیز کیا۔ اسٹیو جابز کے بعد یہ ایپل کی جانب سے پہلا اہم اعلان تھا۔ اسٹیو جابز نے اپنے سوانحہ عمری میں لکھا تھا کہ وہ نصابی کتب اور تعلیم کو اسر نو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
اس کے دو ماہ بعد ہی ایپل نے iPad3کا اجراء کیا جو ریٹینا ڈسپلے سے مزین تھا۔ پے درپے کامیاب مصنوعات کا نتیجہ ایپل کی اسٹاک ویلیو میں زبردست اضافے کی صورت میں نکلا۔ 20 اگست 2012ء کو ایپل کی اسٹاک ویلیو 624 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی جو دنیا کے کئی درجن ممالک بشمول پاکستان، کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔
24 اگست کو امریکی جیوری نے سام سنگ اور ایپل کے مقدمے میں فیصلہ ایپل کے حق میں دیا اور سام سنگ کو اسے 1.06ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ سام سنگ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
12 ستمبر 2012ء کو iPhone 5 جبکہ 23 اکتوبر 2012ء کو iPad Mini کو ریلیز کیا گیا۔ یہ دنوں مصنوعات بھی گزشتہ ورژنز کی طرح بے حد کامیاب ثابت ہوئیں۔
تنازعے
ایپل کی پوری تاریخ تنازعوں اور مقدمے بازی سے بھری ہوئی ہے۔ ایپل نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کئی بار ایسے مقدمے بھی کئے جو اس کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ تازہ ترین تنازعوں میں اس کی سام سنگ الیکٹرانکس کے ساتھ چلنے والی قانونی جنگ ہے۔ ایپل کو سام سنگ کی مصنوعات کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ سام سنگ گلیکسی ایس تھری کی شکل میں دنیا کو ایپل آئی فون کا متبادل دستیاب ہے جو آئی فون سے کم قیمت بھی ہے اور معیار میں اس کے ہم پلہ بھی۔ سام سنگ الیکٹرانکس اس وقت موبائل فون بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپل آئی فون بنانے کے درکار کئی پرزے سام سنگ ہی ایپل کو تیار کرکے دیتا ہے۔
ایپل اور سام سنگ کا تنازعہ اب انتہائی شدت اختیار کرچکا ہے۔ آئے روز دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف نت نئے الزامات لگائے جاتے رہتے ہیں اور دونوں ہی نے ہر اہم ملک کی عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمے دائر کررکھے ہیں۔
مائیکروسافٹ کے ساتھ بھی ایپل کی ایک عرصے تک چپقلش جاری رہی۔یہ چپقلش شاید مزید جاری رہتی اگر ایپل نے اپنی توجہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی جانب مرکوز نہ کرلی ہوتی۔
ایچ ٹی سی کے ساتھ بھی ایپل کی مقدمے بازی جاری رہی۔ حال ہی میں دونوں نے ایک معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے خلاف دنیا بھر میں دائر کئے گئے مقدمے واپس لے لئے۔ لیکن اس معاہدے کے تحت کہا جارہا ہے کہ ایپل کو ہر سال 280 ملین ڈالر کی آمدنی ہوگی۔
دنیا بھر میں ایپل کا تشخص ایک مفاد پرست اور منافع خور کمپنی کے طور پر مشہور ہے۔ کمپنی کی مصنوعات اپنی جائز قیمت سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کمپنی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہے۔ کمپنی کی اپنے ملازمین کے حوالے سے پالیسی بھی انتہائی سخت ہے۔ کمپنی کے ہر پروجیکٹ میں ایک DRIہوتا ہے جو کسی بھی پروجیکٹ کی کامیابی، ناکامی یا خامیوں کا براہ راست ذمے دار ہوتا ہے۔ کسی پروجیکٹ کی ناکامی یا اس میں خرابیوں کا نتیجہ اکثر DRI کی نوکری سے فراغت کی صورت میں نکلتا ہے۔
کمپنی ایک عرصے تک ہارڈویئر مارکیٹ میں رائج معیارات سے ہٹ کر اپنی مرضی چلاتی رہی ہے۔ انٹل پروسیسرز سے دوری اس کی ایک مثال ہے۔ تاہم اب اس نے یہ روش ختم کردی ہے۔            ٭٭

A Story of IBM in urdu

A Story of IBM in Urdu 


IBM_logoآئی بی ایم یا انٹرنیشنل بزنس مشین دنیا کی چند سب سے زیادہ جانی مانی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ بگ بلیو کہلانے والی اس کمپنی کی بنیاد 1911ء میں تین مختلف کمپنیوں کو ضم کرکے رکھی گئی تھی۔ اس وقت اس کا نام کمپیوٹنگ ٹیبولیٹنگ ریکارڈنگ کمپنی (CTR) تھا۔ تاہم 1924ء میں اس کا نام تبدیل کرکے انٹرنیشنل بزنس مشین رکھ دیا گیا۔ اس کا ہیڈ آفس Armonk، نیویارک میں ہے۔ اپنے لوگو اور مصنوعات کی وجہ سے آئی بی ایم کا نک نیم ’’بگ بلیو‘‘ مشہور ہوگیا۔
2012ء کی Fortuneرینکنگ کے مطابق آئی بی ایم ملازمین کے حساب سے امریکہ کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ جبکہ منافع کے لحاظ سے اس کا نمبر نواں ہے۔ آئی بی ایم کے پاس کسی بھی دوسری امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیٹنٹس (Patents) ہیں اور اس کی 9ریسرچ لیباریٹریز دنیا بھر میں موجود ہیں جو نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا منبع ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آئی بی ایم کے ملازمین نے اب تک پانچ نوبل پرائز جیتے ہیں۔ جبکہ دیگر درجنوں اعلیٰ ایوارڈز اس کے علاوہ ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے ملازمین کا اتنی بڑی تعداد میں نوبل پرائز جیتنا بذات خود ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔ دنیا بھر میں اس کے کل ملازمین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ صرف بھارت میں آئی بی ایم کے ملازمین کی تعداد 75ہزار ہے۔ جبکہ اس کا کاروبار 170 ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
ہمارے روز مرہ استعمال کی کئی چیزیں آئی بی ایم ہی کی ایجاد کردہ ہیں۔ اسی لئے اس دنیا کی چند بہترین تخلیقی کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اے ٹی ایم جس نے کنزیومر بینکنگ میں ایک انقلاب برپا کیا، فلاپی ڈسک جس نے ڈیٹا اسٹوریج کی دنیا کو ایک نئی جہت بخشی، ہارڈڈسک جس کے بغیر اب کمپیوٹر کا تصور بھی مشکل ہے، میگنیکٹ اسٹرپ کارڈ، ریشنل ڈیٹا بیس ، یونی ورسل پراڈکٹ کوڈ، ڈی ریم وغیرہ سب آئی بی ایم ہی کی ایجادات ہیں۔
اس وقت آئی بی ایم کا کاروبار نہ صرف کمپیوٹر ہارڈویئر، بلکہ سافٹ ویئر، مین فریم کمپیوٹرز، نینو ٹیکناجی، مصنوعی ذہانت، کنسلٹنگ سروس، انفراسٹرکچر اور ہوسٹنگ تک پھیلا ہوا ہے۔
اگرچہ عام کمپیوٹرز بنانے میں اس کا کردار اب نہ ہونے کے برابر ہے لیکن آج بھی کمپیوٹر آئی بی ایم کے متعین کردہ معیارات کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔
اس ادارے کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ طویل ہے۔ 1911ء میں جب اس کمپنی کی بنیاد رکھی گئی اس وقت اس کے صرف تیرہ سو ملازمین تھے۔ 1914ء میں تھامسن جے واٹسن کو اس کے سربراہی کی ذمہ داری دی گئی۔ واٹسن نے اس ذمہ داری کو بے حد احسن طریقے سے نبھایا اور کمپنی دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگی۔صرف چار سال میں کمپنی کی آمدن دگنی یعنی 9ملین ڈالر ہوگئی اور کمپنی کا کاروبار یورپ سمیت، سائوتھ امریکہ، ایشیا اور آسٹریلیا میں پھیل گیا۔ آئی بی ایم کے لئے THINKکا مشہور زمانہ سلوگن بھی انہی کا متعارف کردا ہے۔
1937ء آئی بی ایم کی تیار کردہ حسابی مشینیں کمپنیوں کے لئے لازم ہوگئیں۔ ان مشینوں کی مدد سے بڑے بڑے حساب کتاب بہ آسانی کرلیئے جاتے تھے۔ امریکی حکومت بھی اس کے صارفین میں شامل تھی جسے کے 26ملین لوگوں کی ملازمتوں کا ریکارڈ ترتیب دینے کے منصوبے کو آئی بی ایم کی مدد سے پورا کیا۔ یہ بات ضرور دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ آئی بی ایم نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کے امریکی حکومت کے لئے چند چھوٹے ہتھیار بھی تیار کئے تھے۔
1952ء میں اپنے والد کی چالیس سالہ صدارت کے بعد تھامس جے واٹسن جونیئر نے  ان کی جگہ سنبھالی۔ 1956ء میںآئی بی ایم کے آرتھر ایل سیموئل نے IBM 704 تیار کیا جو کہ شطرنج کھیل سکتا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اپنے تجربے سے خود بخود سیکھتا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کا پہلا عملی مظاہرہ تھا۔
1957 میں IBM نے مشہور زمانہ ہائی لیول کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج فورٹران متعارف کروائی۔ سائنسی پروگرام کے لیئے خاص سہولیات رکھنی والی فورٹران آج بھی استعمال کی جاتی ہے۔ 1961 میں تھامس جے واٹسن جونیئر بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ البرٹ ایل ولیمز کمپنی کے صدر بنے۔
IBMنے امریکی ایئر لائن کے لئے SABREنامی ایک ریزرویشن سسٹم تیار کیا جس نے فضائی آمد ورفت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ 31 جولائی 1961ء کو آئی بی ایم نے Selectric ٹائپ رائٹر کے نام سے الیکٹرک ٹائپ رائٹر متعارف کرایا جو کہ بے حد مقبول ہوا۔1963 میں آئی بی ایم کے ماہرین اور کمپیوٹرز کی مدد سے ناسا نے مرکری پراجیکٹ کے خلابازوں کی زمین کے گرد پرواز کو مانیٹر کیا۔ اسکے ایک سال بعد IBM  نے اپنا ہیڈ کوارٹر نیویارک سٹی سے آرمونک، نیویارک منتقل کر دیا۔ آئی بی ایم نے خلائی مہمات میں اپنی خدمات جاری رکھیں اور ناسا کے خلائی مشنز میں بھرپور معاونت فراہم کرتا رہا۔ 1965 ء کی Gemini پرواز ہو یا 1966ء کی Saturn پرواز یا پھر 1969ء میں چاند کی طرف بھیجا جانے والا خلائی مشن، IBM نے سب میں اہم کردار ادا کیا۔
7 اپریل 1964ء کو IBM نے IBM System/360 متعارف کرایا جو کہ 1964ء سے 1978ء کے درمیان فروخت ہوتا رہا۔ یہ کمپیوٹروں کی نسل کا پہلا کمپیوٹر تھا جو چھوٹے بڑے تمام تجارتی اور سائنسی پروگراموں کو چلا سکتا تھا۔اس کی مدد سے پہلی بار کمپنیاں اس قابل ہوئیں کہ کمپیوٹر اپیلی کیشن کو دوبارہ لکھے بغیر بھی کمپیوٹر کو اپ گریڈ کر سکیں۔ 1973ء میں IBM کے انجینئر نے یونیورسل پراڈکٹ کوڈ بنایا۔ 11اسی تناظر میں اکتوبر 1973ء کو  آئی بی ایم 3660 متعارف کروایا گیا جو کہ ایک لیزرا سکینگ بار کوڈ ریڈر تھا جس کی مدد سے خریداری کا عمل بے حد تیز رفتار ہوگیا۔آج تقریباً ہر بڑے اسٹور پر بار کوڈ کے ذریعے اشیاء کو اسکین کرنا اور ان کا حساب کتاب کرنا ایک عام بات ہے۔
1966ء میں آئی بی ایم کے محقق رابرٹ ایچ ڈینارڈ نے DRAM ایجاد کی۔ ڈی ریم جدید کمپیوٹر سمیت تقریباً تمام ڈیجیٹل آلات کا ایک اہم جز ہے۔
1970ء کی دہا ئی کے آخر میں آئی بی ایم کی انتظامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ایک گروپ یہ چاہتا تھا کہ جیسے دال روٹی چل رہی ہے، اسے ویسے ہی چلنے دیا جائے جبکہ دوسرا دھڑا کہتا تھا کہ پرسنل کمپیوٹر پر بھاری سرمایہ کاری کی جائے۔
آئی بی ایم نے 1981ء میں IBM PC متعارف ہوا جس نے جلد ہی صنعتی معیار کا درجہ حاصل کر لیا۔ 1991ء میں IBM نے Lexmarkکو فروخت کر دیا جبکہ 2002ء میں PwC Consultingنامی کمپنی کو خرید لیا۔ اپنی سو سالہ تاریخ کے دوران آئی بی ایم نے اپنے کئی کاروبار فروخت بھی کیئے ہیں اور کئی کمپنیوں کو خرید کر اپنے کاروبار کو پھیلایا بھی ہے۔ 2003ء میں آئی بی ایم نے اپنی ہی ایک ٹیکنالوجی JAM کی مدد سے اپنے پچاس ہزار ملازمین کے ساتھ بذریعہ انٹرنیٹ کاروباری مسائل پر بات چیت کی اور اس تمام بات چیت کا متن ایک طاقتور تجزیہ کار سافٹ (eClassifier) کی مدد سے جانچا گیا۔ اس سارے عمل کا مقصد آئی بی ایم کی کاروباری اقدار کو جدید طرز پر استوار کرنا تھا۔ ایسا ہی ایک اور میٹنگ جس میں 52ہزار ملازمین شامل تھے، 2004ء میں بھی منعقد کی گئی۔ 2005ء میں کمپنی نے اپنا پرسنل کمپیوٹرز کا کاروبار Lenovo کو فروخت کردیا کیونکہ اس وقت تک ایچ پی، ڈیل اور دوسری کمپنیاں مارکیٹ میں اپنے اجارہ داری قائم کرچکی تھیں اور آئی بی ایم کے لئے اس کاروبار پر توجہ دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
آئی بی ایم اوپن سورس تحریک کا بڑا حامی رہا ہے اور 1998ء سے اس نے باقاعدہ طور پر لینکس کی حمایت شروع کردی ہے۔ کمپنی نے لینکس کی ترقی اور ترویج کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں اور اس مقصد کے لئے باقاعدہ ایک انسٹی ٹیوٹ لینکس ٹیکنالوجی سینٹر کے نام سے قائم کررکھا ہے جہاں تین سو سے زائد ڈیویلپرز کام کررہے ہیں جن کا کام لینکس کی Kernel کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔ اسی طرح آئی بی ایم نے اپنے کئی کلوڈ سورس سافٹ ویئر کا کوڈ بعد میں جاری کردیا تھا۔ ان میں سے ایک مشہور سافٹ ویئرe Eclipsہے جس کی مالیت اوپن سورس کرنے سے پہلے 40 ملین ڈالر تھی۔ تاہم آئی بی ایم کا اوپن سورس تحریک کا سفر اتنا سیدھا نہیں رہا اور اسے کئی قانونی چارہ جوئیوں کا سامنا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے میدان میں آئی بی ایم کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈیپ بلو نامی سپر کمپیوٹر نے 11مئی 1997ء کو شطرنچ کے عالمی چمپیئن گیری کیسپاروف کو شکست دے کر سب کو حیران کردیا۔ اگرچہ گیری کیسپاروف کا خیال ہے کہ آئی بی ایم نے دھوکہ دہی سے کام لیا ۔ کیسپاروف نے مقابلہ دوبارہ کروانے کا مطالبہ کیا مگر آئی بی ایم نے نہ صرف یہ کہ منع کردیا بلکہ ڈیپ بلیو کو بھی توڑ دیا۔
2011ء میں آئی بی ایم ایک بار پھر مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خبروں میں نمایاں ہوگیا جب اس نے Watsonنامی مصنوعی ذہانت کا حامل کمپیوٹر سسٹم پیش کیا۔ اس سسٹم کا نام واٹسن آئی بی ایم کے پہلے صدر کے اعزاز میں رکھا گیا۔ اس سسٹم کی صلاحیتوں کے جانچ کے لئے اسے Jeopardy! نامی امریکی ٹیلی وژن کوئز شو میں مقابلے کے پیش کیا گیا جہاں اس نے براڈ روٹر (Brad Rutter) کو شکست دے دی۔ براڈ روٹر اس کوئز شو پر سب سے زیادہ پیسے جیتنے والے کھلاڑی تھے۔ اس سسٹم کا ہارڈویئر کسی سپر کمپیوٹر سے کم نہیں۔ اس میں صرف میموری ہی 16 ٹیرا بائٹس نصب ہے۔ پروسیسنگ پاور کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ 500 گیگا بائٹس جتنا ضخیم ڈیٹا صرف ایک سیکنڈ میں پروسس کرسکتا ہے۔ بلیو جین نامی سپر کمپیوٹرز کی نسل بھی آئی بی ایم کی تیار کردہ ہے جسے 2009ء میں امریکی صدر بارک حسین اوبامہ نے نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی اینڈ اینویشن سے نوازا۔
16اگست 2012ء کو آئی بی ایم نے اعلان کیا کہ وہ ٹیکساس میموری سسٹمز نامی ایک مشہور کمپنی کو خرید رہا ہے۔اسی ماہ یعنی 27اگست 2012ء کو آئی بی ایم نے Kenexaنامی کمپنی کو 1.3 ارب ڈالر میں خریدا۔         ٭٭

A Story of Sucess about AMD

A Story of Sucess about AMD

اے ایم ڈی (مائیکرو پروسیسرز بنانے والی ایک کمپنی)
اے ایم ڈی دراصل ایڈوانس مائیکرو ڈیوائسس کا مخفف ہے اور یہ امریکی کمپنی، کمپیوٹر کے مائیکروپروسیسرز بنانے کے حوالے سے شہر ت رکھتی ہے۔ اس وقت اے ایم ڈی دنیا کی دوسری بڑی x86 پروسیسر بنانے والی کمپنی ہے۔ ساتھ ہی یہ non-volatile فلیش میموری بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بھی ہے۔ دنیا کی 20 سب سے بڑی سیمی کنڈکٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں میں اے ایم ڈی 3.9 بلین کے revenue کے ساتھ پندرہویں نمبر پر ہے۔
اس کمپنی کی بنیاد 1969ء میں فیئر چائلڈ سیمی کنڈکٹر سے علیحدہ ہونے والے چند دوستوں جن میں جیری سینڈیرس بھی شامل تھے، نے رکھی۔ اس کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر ’’ڈاکٹر ہیکٹر روئز‘‘ اور چیف آپریٹنگ آفیسر اور صدر ’’ڈِرک میئر‘‘ ہیں۔
اے ایم ڈی نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی لوجک چپس تیار کرنا شروع کردی تھیں مگر میموری چپس کی تیاری 1975ء میں شروع کی گئی۔ اسی سال اے ایم ڈی نے ریورس انجینئرنگ کے ذریعے انٹل 8080 مائیکرو پروسیسر کی نقل بھی تیار کرلی۔ اس کے بعد اے ایم ڈی نے گرافکس اور آڈیو چپس کی تیاری میں بھی دلچسپی لینا شروع کردی مگر اس میدان میں اے ایم ڈی کو کامیابی نہ مل سکی۔ اس ناکامی کے بعد اے ایم ڈی نے اپنی توجہ کامرکز intel Completable پروسیسر ز اور فلیش میموری چپس کو بنا لیا۔اس طرح اے ایم ڈی براہِ راست انٹل کا حریف بن گیا جو اس دور کی طرح آج بھی دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو پروسیسر بنانے والی کمپنی ہے۔
فروری 1982ء میں اے ایم ڈی اور انٹل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت 8086 اور 8080 مائیکرو پروسیسرز جو انٹل کے تیار کردہ تھے، اے ایم ڈی بھی تیار اور فروخت کرسکتا تھا۔ اس معاہدے کی وجہ آئی بی ایم تھا۔ آئی بی ایم 8080 پروسیسر کو اپنے پرسنل کمپیوٹرز میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس وقت جو پالیسی یہ اپنائے ہوئے تھا اس کے تحت آئی بی ایم کو مائیکرو پروسیسرز کی فراہمی کے لئے کم از کم دو ماخذ (Source) درکار تھے۔
اے ایم ڈی نے انٹل سے معاہدے کے بعد 286 مائیکرو پروسیسر بھی تیار کئے مگر 1986 ء میں انٹل نے یہ معاہدہ توڑ دیا اور 386 پروسیسر کی تیکنیکی معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ اے ایم ڈی نے انٹل کے اس عمل کوعدالت میں چیلنج کردیا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد 1991ء میں سپریم کورٹ آف کیلیفورنیا نے اے ایم ڈی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے کے مطابق انٹل کو پابند کیا گیا کہ وہ اے ایم ڈی کو 1ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور جرمانہ ادا کرے۔ ساتھ ہی اے ایم ڈی پر بھی کچھ پابندیاں لگائی گئیں۔ جن میں سب سے اہم انٹل کے پروسیسرز کی Clean-Room ڈیزائن کرنا تھی۔ کلین روم ڈیزائن بھی دراصل ریورس انجینئرنگ ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس میں ایک ٹیم ’’کوڈ‘‘ کے کام کرنے کا طریقہ کار بیان کرتی ہے جبکہ دوسری ٹیم اس بیان کردہ طریقہ کار کے تحت اپنا کوڈ خود تیار کرتی ہے جو بالکل اصل کوڈ کی طرح کام کرتا ہے۔
1991ء میں اے ایم ڈی نے Am386 پروسیسر ریلیز کیا جو انٹل 80386 پروسیسر کا کلون تھا۔ یہ پروسیسر انتہائی کامیاب ثابت ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کے دس لاکھ یونٹ فروخت ہوگئے۔ اس کامیابی کے بعد 1993ء میں اے ایم ڈی نے Am486 جاری کیا ۔ یہ بھی انٹل 486 کا کلون تھا اور Am386 کی طرح بہت کامیاب رہا۔ ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کی انٹل کے پروسیسرز کے مقابلے میں کم قیمت تھی۔یہی وجہ تھی کہ تقریباً تمام اہم OEM کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوں نے انٹل کے مقابلے میں اے ایم ڈی کے پروسیسرز کے استعمال کو ترجیح دی۔
انٹل کے پروسیسرز کی نقل تیار کرنے کا سلسلہ اے ایم ڈی کے لئے باعثِ شرمندگی بنا جارہا تھا اور اس کی وجہ سے انٹل کو ایک بڑے نقصان کا سامنا تھا۔ اے ایم ڈی ، انٹل کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہا مگر نقالی کی وجہ سے وہ انٹل سے ٹیکنالوجی کے مقابلے میں پیچھے ہی تھا۔
سپریم کورٹ آف کیلیفورنیا نے 1994 ء میں اے ایم ڈی سے انٹل کے 386 کوڈ کو استعمال کرنے کے حقوق سلب کر لئے۔ تاہم بعد میں انٹل اور اے ایم ڈی نے آپس میں ایک معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدے کی بیشتر تفصیلات آج تک خفیہ ہیں ۔ لیکن اس معاہدے نے اے ایم ڈی کو انٹل کے 286، 386 اور 486 کوڈ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اسی معاہدے کے تحت دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کی تکنیکی کامیابیوں کو بالکل مفت استعمال کرسکتی تھیں۔
اے ایم ڈی نے مکمل طور پر اپنا تیار کردہ پہلا پروسیسر K5 ، 1995ء میں ریلیز کیا تھا۔ اس پروسیسر کا نامK5 رکھنا بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ K5 میں K دراصل Kryptonite کا مخفف ہے۔ سپر مین پر لکھی گئی کہانیوں کے مطابق کریپٹونائٹ وہ واحد مادہ ہے جو سپر مین کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اے ایم ڈی کی سپر مین سے مراد انٹل تھی اور K5 انٹل کی برتری کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔
اے ایم ڈی کا یہ پروسیسر 1993ء میں ریلیز کئے گئے انٹل پینٹیئم پروسیسر کا براہِ راست حریف تھا۔ تاہم K5 کا آرکیٹیکچر ’’پینٹیئم پرو‘‘ جیسا تھا ۔ K5 میں کئی مسائل موجود تھے جن میں سب سے بڑا کلک اسپیڈ کا تھا جو اسکرین پر کچھ دکھائی دیتی تھی اور PR ریٹنگ میں کچھ بتائی جاتی تھی۔ K5 درحقیقت ایک بری طرح ڈیزائن کیا گیا پروسیسر تھا جس کی ڈائی کا سائز بہت بڑا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ K5 ایک ناکام پروسیسر ثابت ہوا۔
1996ء میں اے ایم ڈی نے NexGen نامی کمپنی خرید لی۔ یہ کمپنی پروسیسرز کی تیاری کے حوالے شہرت رکھتی تھی۔ NexGen کا اے ایم ڈی میں شامل ہوجانا اے ایم ڈی کے لئے بہت اہم ثابت ہوا۔ کیونکہ اس طرح اے ایم ڈی کو NexGen کے تیار کردہ Nx سیریز پروسیسرز استعمال کرنے کے حقوق بھی حاصل ہوگئے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ NexGen کے بانی انٹل کے پرانے ملازمین تھے۔
اے ایم ڈی نے NexGen کی ڈیزائن ٹیم کو ایک الگ عمارت فراہم کی اور انہیں Nx686 پروسیسر کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کو کہا۔ اس کا نتیجہ 1997ء میں K6 پروسیسر کی صورت میں نکلا۔ K6پروسیسر میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔ اس میں MMX اور فلوٹنگ پوائنٹ یونٹ شامل کردیا گیا۔ ساتھ ہی اس پروسیسر کو  Socket-7 میں نصب ہونے کے قابل بنا دیا گیا۔ اس وقت بیشتر مدر بورڈز میں ساکٹ 7 ہی استعمال کی جارہی تھی اور انٹل کے پینٹیئم پروسیسر بھی اسی ساکٹ میں نصب ہوتے تھے۔ کچھ عرصے بعد اے ایم ڈی نے K6 کو بہتر بناتے ہوئے K6-2 متعارف کروایا۔ K6-2 میں پہلی بار 3DNow! ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ مزیدبراں یہ پروسیسر نئی پروسیسر ساکٹ ’’سپر ساکٹ 7‘‘ میں نصب ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس کی فرنٹ سائیڈ بس اسپیڈ 66 میگا ہرٹز سے بڑھ کر 100 میگا ہرٹز ہوگئی۔
K6 سیریز کا آخری پروسیسر K6-III جو 450 میگا ہرٹز کلاک اسپیڈ کا حامل تھا، یہ جنوری 1999 ء میں جاری کیا گیا۔ یہ پروسیسر انٹل کے اہم ترین پروسیسرز کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوا۔ اس میں 256 کلو بائٹس کی L2 کیشے کور پر ہی نصب کردی گئی تھی۔
K6 سیریز کے تمام پروسیسرز انٹل کے پروسیسرز کے مقابلے میں ہمیشہ کم تر ثابت ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اے ایم ڈی کی پروسیسر فیبری کیشن میں محدود صلاحیت تھی۔ ساتھ ہی انٹل اسٹینڈرڈز سے انحراف کی وجہ سے بھی اے ایم ڈی کی پروسیسر مارکیٹ میں بڑی جگہ نہ بنا سکے۔ لیکن K6 بہر حال ایک معروف سیریز ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ شاید اس کی انٹل کے مقابلے میں کم قیمت تھی۔ انٹل نے بعد میں اے ایم ڈی کے سستے پروسیسرز کا جواب ’’سیلیورن‘‘ پروسیسرز کی صورت میں دیا جو انٹل کے دیگر پروسیسرز سے سستے تھے۔ مگر سیلیورن پروسیسرز انٹل کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے اور اے ایم ڈی آج بھی سستے پروسیسرز کے معاملے میں سب سے آگے ہے۔
جلد ہی اے ایم ڈی کے بانی جیری سینڈریس نے محسوس کرلیا کہ اے ایم ڈی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اسٹریٹجی تبدیل کی جائے۔ اس لئے انہوں نے مشہور ’’ورچوئل گوریلا‘‘ اسٹریٹجی تیار کی۔ جس کے مطابق اسٹریٹیجک انڈسٹری پارٹنرز کو استعمال کرتے ہوئے اے ایم ڈی کو انٹل کے مقابلے پر لا کھڑا کیا جائے۔
اس اسٹریٹجی پر عمل درآمد کا بہترین نتیجہ Athlon/K7 کی صورت میں نکلا۔ اسے اگست 1999ء میں متعارف کروایا گیا۔ اس پروسیسر کا ڈیزائن بنانے والی ٹیم کے سربراہ ڈِرک میئر تھے جو Dec Alpha پروجیکٹ میں مرکزی انجینئر تھے۔ ایتھالون میں طاقتور فلوٹنگ پوائنٹ یونٹ استعمال کیا گیا۔ اپنے ابتدائی ڈیزائنوں میں ایتھالون کی کلاک اسپیڈ بے حد کم اور اس میں کئی تیکنیکی مسائل موجود تھے۔ لیکن جب یہ مارکیٹ میں متعارف کروایا گیا تو پوری مائیکروپروسیسرڈیزائن انڈسٹری میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ اس کی کلاک اسپیڈ حیرت انگیز حد تک زیادہ یعنی 650 میگا ہرٹز تھی۔
ایتھالون کی ریلیز کے بعد انٹل میں ہلچل مچ گئی اور انہوں نے تیزی سے اپنے پروسیسرز کو بہتر بنانے کا کام شروع کردیا۔ اس سے پہلے کے انٹل کوئی بڑی کامیابی حاصل کرتا، اے ایم ڈی نے مارچ 2000 ء میں دو نئے ایتھالون پروسیسرز جن کی کلاک اسپیڈ 900 میگا ہرٹز اور 1 گیگا ہرٹز تھی، متعارف کروا کر دنیا کو ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا۔ پہلی بار دنیا کو احساس ہوا کہ اے ایم ڈی پروسیسر فیبری کیشن میں انٹل کے مدِ مقابل آکھڑا ہوا ہے۔
انٹل نے بھی کچھ دنوں بعد ایک گیگا ہرٹز پروسیسر جاری کیا مگر بڑی تعداد میں مارکیٹ میں پہنچانے کے لئے اسے کئی ماہ لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں اے ایم ڈی بہت پہلے ایتھالون دنیا بھر میں پھیلا چکا تھا۔
بعد میں اے ایم ڈی نے ایتھالون کور پر مشتمل Duron پروسیسر بھی متعارف کروائے جو ایتھالون کے مقابلے میں کافی سستے تھے۔ اے ایم ڈی کی ٹیکنیکل اور مارکیٹنگ کامیابیوں نے مارکیٹ میں اے ایم ڈی کا شیئر بڑھا کر 23 فی صد کردیا۔
ایتھالون کی چکا چوند کو اس وقت گرہن لگا جب انٹل نے پینٹیئم فور پروسیسر متعارف کروایا۔ اے ایم ڈی نے انٹل کے مقابلے میں ایتھالون ایکس پی جاری کیا مگر اس میں کوئی خاص تبدیلی سوائے بہتر کلاک اسپیڈ کے ، دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن انٹل نے بعد میں پینٹیئم فور نارتھ وُڈ پروسیسر متعارف کروایا جس نے ایتھالون ایکس پی کو مقابلے سے بالکل باہر کردیا۔
K8 یا AMD64 جو K7 آرکیٹیکچر میں بنیادی تبدیلیوں کے بعد بنایا گیا ہے، یہ پہلا 64 بِٹ پروسیسر تھا۔ اس پروسیسرز کے لئے تمام تر اسٹینڈرڈز اے ایم ڈی نے خود تیار کئے تھے اور ان اسٹینڈرڈز کو مائیکروسافٹ سمیت لینکس اور سن مائیکروسسٹمز نے بھی قبول کیا۔ اسے اے ایم ڈی کی سب سے بڑی کامیابی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اب انٹل کے لئے ضروری ہوچکا تھا کہ وہ 64 بِٹ پروسیسرز کی تیاری کے لئے اے ایم ڈی سے معاہدہ کرے۔
اے ایم ڈی نے K8 کا سرور ورژن آپٹرون بھی متعارف کروایا۔ یہ ورژن انٹل کے اٹانیئم آرکیٹیکچر کے مقابلے پر متعارف کروایا گیا تھا مگر اٹانیئم پروسیسرز کی ناکامی کے بعد آپٹرون براہِ راست انٹل زیون پروسیسرز کے مدِمقابل آگیا۔
21 اپریل 2005ء میں اے ایم ڈی نے دنیا کا پہلا x86 سرور پروسیسر جو دُہرے کورز پر مشتمل تھا، ریلیز کیا۔ بعدمیں 31 مئی کو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کے لئے پہلا دُہرے کورز والا پروسیسر Athlon 64 X2 متعارف کروایا گیا۔ انٹل کے دُہرے کور والے پروسیسرز میں پروسیسر کے ایک پیکج میں دو مختلف چپس پر کورز موجود ہوتی ہیں، جبکہ اے ایم ڈی کے دُہرے کور والے پروسیسر میں ایک ہی چِپ پر دونوں کورز موجود ہوتی ہیں۔ انٹل کے ڈیزائن میں اگرچہ بہت سے خوبیاں موجود ہیں مگر دونوں کورز کے درمیان کمیونی کیشن بہرحال اے ایم ڈی پروسیسرز کے کورز کے مقابلے میں سست ہے۔
18مئی 2006ء کو Dell نے اعلان کیا کہ وہ 2006 کے آخر تک آپٹرون پروسیسرز پر مشتمل سرورز متعارف کروائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ڈیل اور انٹل کا طویل تعلق بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ اے ایم ڈی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس وقت پرفارمنس کے لحاظ سے اے ایم ڈی کے پروسیسرز پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں۔ سرور سسٹمز میں ان کی کارکردگی انٹل سے بھی بہتر بتائی جاتی ہے۔
(یہ تحریر ماہنامہ کمپیوٹنگ شمارہ اپریل 2007 میں شائع ہوئی تھی)

Login your system from your usb Flsh Drive

Login your system from your USB Flash Drive 


سسٹم یو ایس بی سے لاگ اِن کریں


usblogon_logon_mgr_assoc

اگلی بار جب سسٹم آن کریں اور سسٹم پاس ورڈ مانگے تو اپنی سیٹ کی ہوئی ڈیوائس کمپیوٹر سے اٹیچ کر دیں، سسٹم فوراً ہی لاگ اِن ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر سسٹم لاک کریں تو یوزرنیم اور پاس ورڈ ٹائپ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بٹن بھی آرہا ہو گا۔ اپنی یو ایس بی سسٹم میں پلگ کر کے اس آپشن پر کلک کرنے سے بھی سسٹم لاگ ان ہو جائے گا۔
لاگ ان ڈیوائس جب چاہیں بدلی بھی جا سکتی ہے۔ اس کام کے لیے اسائن کی گئی ڈیوائس کو ’’اَن اسائن‘‘ کر دیں۔ اس کے علاوہ بھی تمام قسم کی تبدیلیاں کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اس پروگرام کو احتیاط کے ساتھ انسٹال کریں کیونکہ یہ ساتھ میں فالتو ٹول بار اور دیگر سافٹ ویئر بھی انسٹال کر دیتا ہے۔ اس لیے دیگر چیزوں کو مت انسٹال ہونے دیں۔

یہ پروگرام ونڈوز وستا، سیون اور ایٹ کے لیے دستیاب ہے۔
ڈیویلپر کی ویب سائٹ
دستیابی: مفت

Yahoo Become Angry with google

Yahoo Become Angry 

یاہو! جلد ہی فیس بک اور گوگل کے ذریعے لاگ ان ہونے کی سہولت ختم کردے گا

یاہو! اپنی سابقہ کھوئی ہوئی عزت اور مقام کمانے کے لئے مسلسل ہاتھ پائوں ماررہا ہے۔ گوگل اور فیس بک نے یاہو! کے سنہرے دور کا بالکل خاتمہ کردیا ہے اور یاہو! شاید اسی بات کا غصہ نکالنے کے لئے اپنی تمام سروسز پر گوگل اور فیس بک کے یوزر نیم / پاس ورڈ سے لاگ ان ہونے کی سہولت ختم کرنے جارہا ہے۔ ابتداء میں یہ کام یاہو! اسپورٹس سے شروع کیا گیا ہے اور جلد ہی یاہو! کی دیگر تمام سروسز پر بھی فیس بک اور گوگل کے سائن ان بٹنز ہٹا دیئے جائیں گے۔
صارفین کے لئے اب یہ لازم ہوجائے گا کہ وہ یاہو! کی کسی بھی سروس بشمول یاہو! میل، Flickr استعمال کرنے کے لئے یاہو! کی آئی ڈی سے لاگ ان ہوں۔ اس سے پہلے صارفین کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ اپنا فیس بک یا گوگل کا اکائونٹ بھی یاہو! کی سروسز پر لاگ ان ہونے کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔ یہ سہولت جنوری 2011 ء سے فعال ہے۔ جب یوزر فیس بک یا گوگل کی آئی ڈی سے یاہو! کی سروسز استعمال کرتا ہے تو یاہو! کے پاس صارف کی انتہائی محدود معلومات ہی جمع ہو پاتی ہیں اور وہ انٹرنیٹ پر صارف کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر بے خبر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یاہو! نے اپنے صارفین کی زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ صارف کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے یاہو! کی سروسز کو خاص طور پراس صارف کے لئے بہتر کرکے پیش کیا جائے

World Wide Web Silver Jobless


World Wide Web Silver Jobless ( 10% Pakistanis are online )
12 مارچ 2014ء کو ورلڈ وائڈ ویب کی سلور جوبلی یعنی 25 ویں سالگرہ منائی جائی گی۔ آج سے پچیس سال پہلے 1989ء میں بابائے ورلڈ وائیڈ ویب ’’ٹم برنرزلی‘‘ نے ایک پروجیکٹ پروپوزل تحریر کیا تھا جو بعد میں ورلڈ وائیڈ ویب کی پیدائش کا باعث بنا۔ ورلڈ وائڈ ویب کو پچیس سال گزرنے کے بعد پاکستان میں اس سے مستفید ہونے والی آبادی بھی 10 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ نوّے کی دہائی کے شروع میں ہی دستیاب ہوگیا تھا۔ 2001ء میں جب پاکستان کی آبادی تقریباً ساڑھے چودہ کروڑ تھی، کل آبادی کا صرف 1.3 فی صد حصہ ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے قابل تھا۔ انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پاکستان میں سب سے تیز ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2006ء میں کل آبادی کا 6.5 فیصد اور 2012ء میں جبکہ آبادی اٹھارہ کروڑ کو پہنچ چکی تھی، انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کی شرح 10 فی صد ہوچکی تھی۔
ورلڈ وائیڈ ویب کی سلور جوبلی … پاکستان کی دس فیصد سے زائد آبادی آن لائن
براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی ملک کے طول و ارض میں دستیابی انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ ہے جو ان جگہوں پر بھی دستیاب ہے جہاں براڈ بینڈ موجود نہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کی سال 2012-13 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ستائیس لاکھ سے زائد تھی۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز پر بیرون ملک اور اندرون ملک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ کئی کمپنیوں کی جانب سے انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی نے ان کے درمیان مقابلے کی فضا کو انتہائی سخت کردیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 50 سے بھی زائد انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ہیں اور ان کے درمیان مقابلے نے انٹرنیٹ سروسز کی قیمتوں میں زبردست کمی پیدا کی ہے۔

Double your internet speed ( mix wifi and mobile Data )

Double your internet speed ( mix WiFi and mobile Data )
وائی فائی اور موبائل ڈیٹا دونوں کو استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو تیز بنائیں

 (اینڈروئیڈ)


وائی فائی اور موبائل ڈیٹا دونوں کو استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو تیز بنائیں (اینڈروئیڈ)
فون یا ٹیبلٹ پر کوئی آن لائن وڈیو دیکھتے ہوئے سست انٹرنیٹ کی وجہ سے آپ نے سوچا ہو گا کہ کاش موبائل ڈیٹا اور وائی فائی ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ تیز ہو سکتا۔ VideoBee ایپلی کیشن اسی کام کے لیے موجود ہے۔ یہ موبائل ڈیٹا اور وائی فائی کو دونوں کو استعمال کرتے ہوئے وڈیوز کو لوڈ ہونے میں مدد دیتی ہے۔
یہی نہیں آپ دو وائی فائی کنیکشن بھی بیک وقت استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی دو انٹرنیٹ کنیکشنز جب ایک ساتھ چلیں گے تو ظاہر سی بات ہے انٹرنیٹ کی اسپیڈ ڈبل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ دوستوں کے ساتھ پیئر بنا کر بھی وڈیوز سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
ان تمام زبردست خوبیوں کی مالک یہ ایپلی کیشن اینڈروئیڈ ورژن 2.3 اور اس کے بعد کے ورژنز کے لیے مفت دستیاب ہے۔ اسے استعمال کرنے کے لیے ڈیوائس کا روٹ ہونا بھی ضروری نہیں۔
ایپلی کیشن کے دو موڈز ہیں۔ ایک سولو موڈ اور دوسرا گروپ موڈ۔ گروپ موڈ میں آپ دیگر دوستوں کو بلوٹوتھ کے ذریعے گروپ میں شامل کر کے ایک ہی وڈیو سب دوستوں کے ساتھ مل کر دیکھ سکتے ہیں۔ یعنی کئی انٹرنیٹ کنیکشنز ملا کر تیز رفتار اسٹریمنگ وہ بھی سب دوستوں کے ساتھ۔


Easy Data Recovery wizard


موبائل فون، میموری کارڈ، یو ایس بی یا کمپیوٹر سے ڈیلیٹ شدہ ڈیٹا ریکور کریں

عموماً جب ہم کوئی فائل ڈیلیٹ کرتے ہیں تو وہ ری سائیکل بِن میں چلی جاتی ہے جہاں سے ہم اسے باآسانی ریکور کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر فائلز ری سائیکل بن کو بائے پاس کر جائیں یا ہم ری سائیکل بِن خالی کر دیں تو انھیں واپس حاصل کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’’EaseUS ڈیٹا ریکوری وزارڈ‘‘ ڈیلیٹ کی گئی فائلز ڈھونڈ کر انھیں ریکور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے حتیٰ کہ اگر پارٹیشن فارمیٹ بھی ہو چکا ہو یا ایکسس نہ ہو پا رہا ہو۔ یہ پروگرام یو ایس بی فلیش ڈرائیو، میموری کارڈ، ڈیجیٹل کیمرہ، موبائل فون اور ایم پی تھری پلیئر سے بھی ڈیلیٹ کی گئی فائلوں کو ریکور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پروگرام کو استعمال کرنا بھی بے حد آسان ہے۔ اسے چلائیں اور منتخب کریں کہ آپ کس ذریعے سے ڈیٹا ریکور کرنا چاہتے ہیں مثلاً ڈیلیٹ کی گئی فائلز، مکمل یا پارٹیشن ریکوری۔ اس کا مفت دستیاب ورژن دو جی بی تک کا ڈیٹا ریکور کرتا ہے۔

http://bit.ly/easeus-data ( Download from This Link )

غیر قانونی جاسوسی سے نمٹنے کے ایک نئی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن

غیر قانونی جاسوسی سے نمٹنے کے ایک نئی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن


بہت سے صارفین اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے کہ اپنے اسمارٹ فون میں انہوں نے جو ایپلی کیشن انسٹال کی ہے، اسے کس کس بات کی اجازت (permission) حاصل ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر ایپلی کیشن بہت کچھ ایسا کر جاتی ہیں جو علم ہونے پر ہمیں بالکل اچھا نہ لگے۔ نیز، ایپلی کیشن ڈیویلپرز کی غلطیوں کے وجہ سے صارفین کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ صارف کی موجودگی کی جگہ (لوکیشن) کے بارے میں معلومات کا ہے۔ اینڈروئیڈ اسمارٹ فونز میں چلنے والی ایپلی کیشنز جب صارف کی لوکیشن معلوم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اسکرین کے اوپری حصے پر ایک چھوٹا سا آئی کن ظاہر ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ آئی کن بیشتر صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔
غیر قانونی جاسوسی سے نمٹنے کے ایک نئی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن
اسی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے یونی ورسٹی آف رٹ گرز کے ریسرچرز کی ایک ٹیم نے اچھوتی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن تشکیل دی ہے۔ اس ایپلی کیشن کی موجودگی میں اگر صارف کے اسمارٹ فون میں کوئی دوسری ایپلی کیشن صارف کے محل وقوع کی معلومات کو دیکھنا چاہے گی تو یہ ایپلی کیشن فوراً سے پیشتر خبردار کر دے گی۔ صارف کو اس کی اطلاع کسی آئی کن کی بجائے پوری اسکرین پر ظاہر ہونے والے ایک پیغام سے دی جائے گی جسے نظر انداز کرنا صارف کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے ڈیویلپرز کے مطابق تقریباً دو ماہ بعد یہ ایپلی کیشن باقاعدہ گوگل پلے اسٹور پر ڈائون لوڈنگ کے لئے دستیاب ہوگی۔
اس سے پیشتر ایسا معلوم کرنا آسان نہیں تھا اور اس کے لیے اینڈروئیڈ کو روٹ (root)کرنا پڑتا تھا۔ مگر اب بھلا ہو امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کا کہ جس کے طریقہ واردات سے ہمیں سنوڈن صاحب نے متعارف کرا دیا ہے اور انہی کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی نئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، ان تبدیلیوں سے عام آدمی بھی مستفید ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ایپلی کیشن ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت اکثر ایپلی کیشنز جن میں ویڈیو گیمز، ڈکشنری یا معمولی نوعیت کے کام انجام دینے والی ایپلی کیشنز خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی صارف کے محل وقوع کی معلومات جمع کررہی ہوتی ہیں۔ اگرچہ اینڈروئیڈ محل و قوع کی معلومات ایپلی کیشن کو فراہم کرتے دوران ایک آئی کن ضرور ظاہر کرتا ہے مگر ریسرچ ٹیم کے ہی انجام دیئے ہوئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ صارفین میں سے بیشتر اس آئی کن کو نوٹس ہی نہیں کرتے یا پھر اس کا مطلب ہی نہیں جانتے۔ صارفین کی اسی عدم توجہ کی وجہ سے نیشنل سکیوریٹی ایجنسی جیسی شاطر ایجنسیاں صارفین کے محل وقوع کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا دعویٰ بھی منظر عام پر آیا ہے کہ NSA اینگری برڈ اور گوگل میپس کے ذریعے بھی صارفین کی جاسوسی کرتی ہے۔
اس نئی ایپلی کیشن کے ڈویلپرز نے بتایا ہے کہ جن لوگوںنے اسے ابتدائی طور پر استعمال کیا ، وہ اس کے نتائج دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بہت سے گیمز اور ڈکشنری ایپلی کیشن نے اُن کے محل وقوع سے باخبر ہونا چاہا تھا۔ان ایپلی کیشنز کو چلنے یا اپنا کام انجام دینے کے لئے قطعی طور پر صارف کی لوکیشن جاننے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایسا کررہی تھیں۔ اکثر معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ موبائل ایپلی کیشن سے محل وقوع معلوم کرنے کا مقصد صارفین کو اُن کے محل وقوع کے اعتبار سے اشتہارات دکھانا تھا۔ مگر ایپلی کیشنز کی مدد سے حاصل کی گئی معلومات اکثر بے حساب دوسرے اشتہاربازوں تک پہنچ جاتی ہے ، جو صارف کے لیے درد سر بن جاتی ہے۔
گوگل اینڈروئیڈ کسی ایپلی کیشن کو دوسری ایپلی کیشن کی معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے زیر بحث ایپلی کیشن کو بنانے کے لئے ریسرچ ٹیم نے گوگل کی ہی فراہم کردہ APIs کو استعمال کیا ہے۔

Saturday, 1 March 2014

Very usefull information About English

Very usefull information About English 


1۔ انگلش زبان کے جس بھی لفظ کے شروع یا درمیان میں "q" ہوگا تو اُسکے بعد ہمیشہ "u" آئے گا۔

2۔ "Dreamt" انگلش میں وہ واحد ایسا لفظ ہے جو "mt" پر ختم ہوتا ہے
اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسا لفظ نہیں

3۔ "Underground" انگلش زبان میں واحد لفظ ہے جو "Und" سے شروع اور "Und" پر ہی ختم ہوتا ہے۔

4۔ پوری انگلش زبان میں صرف چار الفاظ ایسے ہیں جو "dous" پر ختم ہوتے ہیں
Tremendous, Horrendous, Stupendous, & Hazardous

5۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق انگلش زبان کا سب سے بڑا لفظ۔۔!
"pneumonoultramicroscopicsilicovolcanoconiosis" یہ ہے جو کہ پھیپھڑے کی ایک بیماری کا نام ہے۔

6۔ "Therein" انگلش کا ایک ایسا لفظ ہے جس سے دس الفاظ نکل سکتے ہیں۔۔!
The, There, He, In, Rein, Her, Here, Ere, Therein, Herein

7۔ Key بورڈ پر صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ٹائپ ہونے والا سب سے بڑا بامعنی لفظ "Stewardesses" ہے۔

8۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں (ok) کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں اِس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک امریکی صدر "اینڈریو جیکسن" نے all correct کے غلط ہجے یعنی oll kurrect استعمال کرتے ہوئے اس کے ابتدائی حروف o.k کو پاپولر بنا دیا۔

9۔ اگر آپ دنیا کے براعظموں کے نام انگریزی میں لکھیں تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہر براعظم کا نام جس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی پر ختم ہوتا ہے۔ سوائے America کے North اور South کے

1۔ Asia۔۔۔2۔ Africa۔۔۔3۔ America۔۔۔4۔ Antarctica۔۔۔5۔ Europe۔۔۔6۔ Australia

10۔ "Typewriter" کا لفظ ہی وہ واحد بامعنی لفظ ہے جو آپ Key بورڈ کی صرف پہلی قطار کے حروف کے اندر اندر ٹائپ کر سکتے ہیں۔

11۔ خدا حافظ کہنے کے لیے انگریزی کا لفظ "good bye" استعمال ہوتا ہے جس کی اصل "God be with you" ہے۔

12۔ انگریزی میں "Silver" اور "Orange" ہی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا کوئی ہم قافیہ لفظ انگریزی میں موجود نہیں۔

13۔ انگریزی زبان میں صرف تین الفاظ ایسے ہیں جن میں دو "u" ایک ساتھ آتے ہیں Vacuum, Residuum, Continuum

کونسا سب سے زیادہ دلچسپ تھا۔۔؟

Apple has sold over 3 billion iPhones globally

  Apple has sold over 3 billion iPhones globally To date, Apple has sold   over  3 billion   iPhones globally. In 2024 alone, Apple sold   2...